Sunday, August 23, 2009

ٹریفک کا سنگین مسئلہ کب حل ہوگا؟۔۔

ٹریفک کا سنگین مسئلہ کب حل ہوگا؟۔۔۔۔
ضیاء الحق سرحدی
اتوار اگست 23, 2009 

کہتے ہیں کہ جب بھی کسی اجنبی ملک میں جاؤ تو اس ملک کے انتظام و ترقی کا اندازہ اس ملک کی ٹریفک سے لگایا جا سکتا ہے اگر ٹریفک منظم ہو اور صحیح طریقے سے رواں دواں ہو تو سمجھ جاؤ کہ یہ ملک بھی اسی طرح منظم ہے اور بااصول لوگوں کا ملک ہے اگر اس نقطہ نگاہ سے ہمارے ملک کو دیکھا جائے تو حالت ناگفتہ بہہ ہے۔ہمارے ہاں بہت عرصے سے ٹریفک نظام کچھ اُلجھنوں اورمشکلات کا شکار ہے اورسلجھن کا متقاضی ہے ہم عوام کی جانب سے پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس طارق پرویزکے مشکور ہیں کہ انہوں نے صوبائی دارلحکومت میں بے ہنگم ٹریفک، غیر قانونی اڈوں اور بغیر پرمٹ رکشوں کے خلاف سوموٹو ایکشن لیااور ان کواس سلسلے میںجو جو تجاویز ملتی ہیں ان کا مکمل جائزہ لے کر ٹریفک حکام سے اس پریشانی کا حل نکلوائیں۔ اصل میں ٹریفک کا مسئلہ اس لئے حل نہیں ہو رہا کہ جب بھی اس ٹریفک کے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو مختلف اطراف سے بڑا دباوٗ آجاتا ہے ٹرانسپورٹ کے کاروبار سے وابستہ بااثرشخصیات میدان میں کود پڑتی ہیں،ٹرانسپورٹرز،ڈرائیورز اور اڈوں سے متعلقہ افراد احتجاجی مظاہرے شروع کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے مسئلہ جوں کا توں پڑارہتاہے جس کا ذکراس امید سے وزیر اعلیٰ سرحدسے بھی کیا جا چکا ہے کہ شاید وہ کوئی حل نکال کر دے دیں پشاور ایک شہر ہونے سے زیادہ تجارتی منڈی بن چکا ہے صبح سویرے گردونواح سے ہزاروں لوگ علاج معالجہ ،محنت مزدوری ،ملازمت وروزگار کے علاوہ دوسرے کہیں کاموں کیلئے پشاور میں داخل ہوتے ہیں اور پورا دن گہما گہمی کے بعدرات کو اس شہر میں کچھ خاموشی نظر آتی ہے دراصل پشاور میں ٹریفک کا نظام جس بری طرح سے تباہ ہو چکا ہے اسے عام نوعیت کے اقدامات یا معمول کے جرمانوں سے بہتر نہیں بنایا جا سکتا بلکہ اس مقصد کیلئے بڑے اور بنیادی اقدامات کی ضرورت ہے گزشتہ بیس پچیس سال سے پشاور اور گردونواح کے علاقوں میں لاکھوں افغان مہاجرین کی آمد و رفت اوپر سے اپنی آبادی میں انتہائی تیز رفتاری سے اضافہ یہ دو وہ بنیادی وجوہات ہیں جن کے باعث ٹریفک کا نظام سرے سے ختم ہی ہو چکا ہے۔حال ہی میں صوبائی حکومت کی جانب سے پانچ کروڑ روپے کی لاگت سے متعارف کرایا جانے والا نیا ماڈل ٹریفک پولیس نظام ردی کی ٹوکری کی نذر ہو گیا شہریوں کو ٹریفک میں روانی کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے پر کشش وردیوں میں ملبوس ٹریفک اہلکاروں کو ایک مرتبہ پھر خطیر رقم سے پرانے رنگ کی وردی پہنا دی گئی صوبائی دارالحکومت پشاور میں ٹریفک کے سنگین مسائل سے نبردآزما ہونے کی غرض سے صوبائی حکومت نے اقتدار کے چند ماہ بعد پشاور میں ٹریفک مسائل کو سدھارنے کی غرض سے پانچ کروڑ روپے کی لاگت سے موٹر وے طرز پولیس کی طرح ٹریفک اہلکاروں کو ٹریننگ کے ساتھ ساتھ نئی وردیوں سمیت نئی موٹر سائیکلیں چار موبائل ایمبولینسزبھی ٹریفک پولیس کے حوالے کی لیکن یہ نسخہ بھی کامیاب ثابت نہ ہوسکا۔اس کے علاوہ صوبائی دارلحکومت پشاور میں ٹریفک کا دباوٗ کم کرنے اور عوام کو سہولت پہنچانے کیلئے صوبائی حکومت اور پاکستان ریلوے کے درمیان سٹی ٹرین چلانے کیلئے سابق وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد اورسابق چیئرمین ریلوے شکیل درانی نے سٹی ٹرین منصوبہ شروع کرنے کی نوید سنائی تھی لیکن وہ بھی پوری نہ ہوسکی۔پشاور شہر کے کئی ایک مقامات ایسے ہیں جہاں روزانہ ٹریفک وقفے وقفے سے بند ہو کر لوگوں کو مصائب و مشکلات سے دو چار کرنے کا باعث بنتی ہے خصوصاً جنرل بس سٹینڈ سے گاڑیاں نکالتے اور اندر لے جاتے وقت تھانہ گلبہار کے بالمقابل چوک گنج کے باہر پھندو روڈ چوک ، رامداس چوک ، نمک منڈی چوک ،ڈبگری چوک ،سول کوارٹرز چوک ، خیبر بازار، شعبہ بازار ، ایل آر ایچ آسامائی گیٹ ، کابلی چوک ، لاہوری چوک ، ڈینز مارکیٹ ، ایف سی چوک ، میاں اقبال چوک پشاور صدر ، خیبر ٹیچنگ ہسپتال اور بورڈ حیات آباد چوک کے علاوہ بھی بعض اوقات متعدد مقامات پر ٹریفک جام ہو جاتی ہے حکام بے بس ہو کر صرف تماشا دیکھتے ہیں علاوہ ازیں پشاور ڈرائی پورٹ روڈ پر بڑے بڑے ٹرک اور ٹرالے کھڑے ہونے کیوجہ سے ٹریفک میں خلل روزانہ کا معمول بن گیا ہے حالانکہ دوسرے شہروں میں بڑے ٹرک اور ٹرالے دن کے وقت اندرون شہر نہیں آسکتے لیکن یہانپر اُلٹی گنگا بہہ رہی ہے جس کی وجہ سے اکثر اوقات پشاور ڈبگری گارڈن جہاں پر بڑی ہسپتالیں اور ڈاکٹروں کے کلینکس ہیں ٹریفک جام ہونے کی وجہ سے مریض ، ضعیف العمر افراد ، خواتین اور طلباء و طالبات سب یکساں طور پر متاثر ہوتے ہیں لیکن خاص طور پر مریضوں کو لے جانے والے ایمبولینس سروس کیلئے مریضوں کو بروقت پہنچانا بہت مشکل ہو جاتا ہے اس لئے صوبائی حکومت کوچاہئے کہ موجودہ ڈرائی پورٹ کو جلد از جلد اضاخیل منتقل کیا جائے اگر غور کیا جائے تو پورے شہر کے مختلف علاقوں میں ٹریفک کا مسئلہ صرف اور صرف تجاوزات کے باعث گھمبیر ہوتا جا رہا ہے ۔پولیس اور ٹریفک حکام کیا کرتے ہیں یہ ایک سربستہ راز ہے اس طرح ٹاوٗن ون انتظامیہ کے اہلکار کیا کرتے ہیں اور وہ کہاں کہاں موجود ہوتے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں پولیس اہلکاروں کے بارے میںمعلوم ہواہے کہ وہ مبینہ طور پر بھتہ وصول کرتے ہیں ان کی نظریں نام نہاد سمگلروں پر ہوتی ہیں جو رکشوں ،سائیکلوں ، ٹرائی سائیکلوں ، دوسری گاڑیوں میں دن بھر باڑہ مارکیٹوں سے کپڑا اور دوسری ’’ٹرانزٹ ٹریڈ اشیاء ‘‘لے کر آتے ہیں ۔ اگر ہمارے ہاں قوانین کے احترام کی یہ حالت ہے پھر تمام اداروں کی ضرورت ہی ختم ہو جاتی ہے لیکن مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ ٹریفک پولیس اپنے فرائض احسن طریقے سے انجام نہیں دے رہی ،ٹریفک پولیس کے اہلکاروں کا زیادہ زور موٹر سائیکل اوررکشہ والوں کا چالان کرنے پر ہوتا ہے ،ٹریفک قوانین کے خلاف ورزی کرنے والوں کو کچھ نہیں کہا جاتا حالانکہ حکام بالا کا فرض ہے اور خصوصی طور پر ضلعی ناظم اور ٹاوٗن ناظم کو چاہئے کہ وہ خود وقتا فوقتا جگہ جگہ اچانک چھاپے مار کراس کا سدباب کریںجب تک ہم قوانین پر عمل درآمد کو یقینی نہیں بنائیں گے اس ملک میں کوئی کام طریقے سے کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتاٹریفک کا قبلہ درست کرنے کیلئے بڑے پیمانے پر اقدامات کرنے ہونگے، موجودہ سڑکوں کو کشادہ کرنا ہو گا ،نئی سڑکیں بنانا ہونگی بلکہ حقیقی معنوں میں نئی اور جہاں ضرورت ہے وہاں رابطہ سڑکوں کا جال بچھانا ہو گا ، شہر کے گرد جن وسیع آبادیوں کی پہنچ رنگ روڈ تک ہو سکتی ہے ان آبادیوں کے ٹریفک کو رابطہ سڑکوں کے ذریعے رنگ روڈ پر لانا ہو گا باڑہ اور لنڈی کوتل کی ٹریفک کو متنی باڑہ کے قدیمی فرنٹیئر روڈ پر ڈالا جائے اس طرح ان روٹوں کی ٹریفک سے شہر کی اندرونی سڑکیں محفوظ ہو جائینگی حکومت کو رنگ روڈ کی جانب بھی توجہ مرکوز کرنی چاہئے کیونکہ وہاں جگہ جگہ خود ساختہ ٹرانسپورٹ اڈے قائم ہیں کنٹینروں کے اڈے بھی بنے ہوئے ہیں رنگ روڈ کے دونوں جانب تجاوزات میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے قانون نام کی کسی شے کا یہاں عمل دخل نہیں ،جو عمارات اور رہائشی کالونیاں بنائی جا رہی ہیں وہ بھی ضروری قانونی تقاضے پورے کرنے سے مبرا ہیں حالانکہ رنگ روڈ جن مقاصد کیلئے تعمیر کیا گیا تھا وہ تو پورے ہی نہیں ہو رہے ہیں ٹریفک کے نظام کی بہتری کیلئے ٹرانسپورٹ کے مالکان کا بھی محاسبہ کرنا ہو گا ، یہ تاثر ختم کرنا ہو گا کہ ٹرانسپورٹ کا نظام ٹرانسپورٹروں کے ہاتھوں صحیح ہو سکتا ہے اس وقت شہر میں چلنے والی تقریباً پچاس سے ساٹھ فیصد تک بسوں ،ویگنوں ،ڈاٹسن گاڑیوں اور سوزوکیوں کے پاس سرکاری کاغذات نہیں ہیں اسی تناسب سے ڈرائیوروں کے پاس لائسنس نہیںعلاوہ ازیں شہر میں اس وقت تقریبا بیس ہزار رکشے چل رہے ہیں صرف چار ہزار کے پاس اجازت نامے (پرمٹ )ہونگے رکشوںکے ساتھ اب ٹیکسیوں کی بھی بھرمارہے ایک اطلاع کے مطابق صرف چودہ سو ٹیکسیوں کے پاس اجازت نامے ہیں تقریبا تین چار ہزار ٹیکسیاں شہر اور صدر میں دندنارہی ہیںجن کیلئے معمولی جرمانے ہیں جرمانوں کی شرح بڑھائی جائے ، کچھ ترقی یافتہ ملکوں کے نظام سے فائدہ اٹھایا جائے ،جرمانے کیلئے ٹکٹنگ کا نظام نافذ کیا جائے ،ڈرائیوروں کو ٹریفک قواعد کا پابند بنانے کیلئے پوائنٹس کا سسٹم رائج کیا جائے جب ڈرائیور کی طرف سے ٹریفک خلاف ورزیوں کے پوائنٹس پورے ہو جائیں تو اس کا لائسنس ہمیشہ کیلئے منسوخ کر دیا جائے، شہر کے اندر گدھا اور گھوڑا گاڑیوں کی آمد ورفت بند کی جائے، شہر کی سڑکوں اور بازاروں میں بنے ہوئے ہتھ ریڑھیوں کے خود ساختہ بازار ختم کئے جائیں اور شہر کے اندر تجارتی مارکیٹوں میں سامان لانے والے ٹرکوں کا داخلہ دن کے وقت بند کیا جائے اور انہیں رات کو شہر میں داخل ہونے کی اجازت دی جائے۔